Friday, May 18, 2018

اصل احتساب عوام کریں گے. حمزہ شہباز


ان مکار اور زہنی بیمار کھوتوں کو کون سمجھائے کہ کمزور نہ احتساب /انصاف کر سکتا ہے نہ مانگ سکتا ہے. یہ مہزب دنیا کا مسلمہ اصول ہے.
"حدیث مبارکہ ہے کہ مفلسی نصف کفر ہے."
او بھڑوے ایک پلیٹ بریانی اور چند ہزار کی نوکری پر اپنا ووٹ اور دین ایمان نچھاور کر دینے والے عوام تیرا کیا خاک احتساب کریں گے. تم لوگوں نے تیس سال تک عوام کو بدھو بنا لیا اب ہم تمہاری ان مداریوں جیسی تھپکیوں سے پھولنے والے نہیں.
مخلصو کچھ خلوص بھی دکھاؤ
پردہ مری عقل کا تھوڑا سا ہٹاؤ
میں بہت گر چکا ہوں مجھے اور نہ گراؤ
سوال مقام بندگی ہے مری آبرو بچاؤ
بہت ہو چکی باتیں کچھ کر کے بھی دکھاؤ
میں بہت بن چکا ہوں مجھے اور نہ بناؤ
ہے فرض عین عبادت دین کی نگاہ میں
دین کی نگاہ میں یارو گر نہ جاؤ

Thursday, May 10, 2018

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی


بس یہی فرق ہوتا ہے ایک احمق اور عقلمند لیڈر میں. عقلمند اپنے مال و دولت کو بھی خدا کی امانت سمجھ کر اور یوم حساب پر کامل یقین رکھتے ہوئے خرچ کرتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے ایک منشی اپنے مالک کا چاہے ماہانہ کروڑوں روپیہ اکٹھا کرتا ہے مگر اس میں سے صرف اپنا حق یعنی اپنی تنخواہ رکھ کر باقی مالک کا مال اسے واپس لوٹا دیتا ہے. جبکہ ایک احمق قومی دولت کو بھی اپنے باپ دادا کی وراثت سمجھ کر استعمال کرتا اور عزیز و اقارب پر نچھاور کرتا ہے.یہی وہ مقام ہے جہاں قرآن حکیم عوام اور خواص میں فرق کو واضح کرتا ہے. یعنی ایک طرف عوام جو اللہ کے دئیے کو اپنا مال سمجھتے ہیں انہیں حکم دیتا ہے اپنے مال میں سے صدقہ، زکوۃ اور خیرات دیتے رہا کرو جبکہ دوسری طرف اسی قرآن میں خواص کو حکم ہے کہ میرے دئیے میں سے اپنی ضرورت کا رکھ لیا کرو اور باقی میرا مجھے واپس لوٹا دیا کرو. چونکہ اللہ کو تو دنیا کے مال و دولت کی کوئی حاجت نہیں لہذا مفسرین اسکی تشریح یہی کرتے ہیں کہ اللہ کے ضرورتمند بندوں کو دینا ہی اللہ کو واپس لوٹانا ہے. اور بلا شبہ نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم، آل رسول ص ع اور خلفاء راشدین کا طریق بھی یہی تھا کہ وہ ضرورت کا ہی گھر میں رکھتے اور باقی سارا اپنے مالک کو واپس لوٹا دیتے.
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

Monday, April 9, 2018

لاکھ لعنت ایسی اچھی اور زیادہ ترقی پر

سب سے اچھی اور زیادہ ترقی پنجاب میں ہوئی ہے. نواز شریر
لاکھ لعنت ایسی اچھی اور زیادہ ترقی پر
1-نندی پور پاور پراجیکٹ ترک گیا
2-PEI(p&R)Act.2016 Sec,7a 
میں ترمیم کے بعد پرائیویٹ سکولز 5%سے زیادہ فیس نہیں بڑھا سکتے مگر وہ 20-35%بڑھا رہے ہیں.لعنت تم پر
3-عوام کے علاج کے لئے سول ہسپتالوں کے قصائی اور اپنے علاج کے لئے انگریز بھائی. لعنت ایسی اچھی ترقی پر.
4-پینے کا پانی پہلےہم اپنے گراؤنڈ واٹر سے مفت لیتے تھے پھر جب تم الوؤں کے پلے پڑے تو دو ہزار روپے ماہانہ ادا کر کے کمپنی سے خریدتے رہے اور اب قوم کے بیس. لاکھ روپے سے بنے پلانٹ سے دو سو روپے ہر ہفتہ ٹرانسپورٹ اخراجات ادا کر کے تین کلو میٹر سے پینے کا پانی لا رہے ہیں.گراونڈ واٹر میں گڑوں کا پانی مکس تمہاری کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے ہوا ہے.
شرم دی ماری اندر وڑھی مورکھ آکھے میتھوں ڈری.لعنت

Monday, April 2, 2018

خاتمہ لوڈشیڈنگ کی حقیقت


شاہ جی بات سمجھنے کی کوشش کریں وہ کوئی پاگل تو نہیں یا انہیں کسی باولے کتے تو. نہیں کاٹا کہ چھ تا چودہ گھنٹے لوڈشیڈنگ ملک میں ہو رہی ہے اور وہ اپنی رٹ لگائے جا رہے ہیں کہ ختم ہو گئی ختم ہو گئی. انہوں نے واقعی لوڈشیڈنگ اپنے انتخابی وعدے کے مطابق ختم کر دی تھی اور آج بھی کہیں نہیں مگر صرف انکے پکے ووٹرز بجلی چور، گیس چوری، ٹیکس چور نام نہاد تاجروں، صنعتکاروں اور کارخانے داروں کی فیکٹریوں، کولڈ سٹوریج، دکانوں اور فرنس بھٹیوں والے علاقوں والی سب ڈویژنوں میں.

https://www.facebook.com/tajdin.malik.1/posts/350390652036159
https://www.facebook.com/TajDinMalik43/
https://twitter.com/tajdinmalik43
https://tajdinmalik51.wixsite.com/website

Thursday, March 29, 2018

کیاPCSIRکے ڈاکٹرز قابل اعتماد ہیں؟


کاش آپ لوگ کسی ادارے کے بارے کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے ایک نظر سوشل میڈیا پر ہی ڈال لیا کریں. صحافت یکطرفہ رپورٹنگ یا بیانیے کو جاری کرنے کا نام نہیں. زمہ دارانہ صحافت دو طرفہ موقف کو شائع /ریلیز کرنے کا نام ہے. آپکی جگہ اگر میں ہوتا تو
PCSIR
جا کر انکی تعریفیں میڈیا پر لانے سے پہلے سوشل میڈیا پر سوشل ورکرز کی پروفائل سے
PCSIR
کی سابقہ کارکردگی کی انفارمیشن حاصل کرتا اور پھر
PCSIR
جاتا. جس لیب کی تعریفوں کے پل کل شام آپ نے باندھے انکی ایک رپورٹ نمبر 4918 ٹیسٹنگ مورخہ 12.10.15 - 17.10.15 کسٹمر ڈسٹرکٹ کنزیومر کورٹ گوجرانوالہ کی حقیقت سن لیجئیے.
ممورخہ 18.02.15 کو میں نے شیزان والوں کی ایک اچار کی بالٹی خریدی جس کی ایکسپائری ڈیٹ.22.0515 تھی. گھر لا کر جب بالٹی کھولی گئی تو اچار کالا سیاہ ہو چکا تھا. کنزیومر کورٹ کی بے ایمانی کہ اس نے وہ سیمپل04.10.15 کو لیب بھیجا. 9000 روپے میں نے فیس ادا کی مگر جب رپورٹ آئی تو لیب والوں نے ملی بھگت سے ایکسپائری ڈیٹ سے بھی پانچ ماہ زائد المیعاد پراڈکٹ کو
Safe for human consumption
لکھ دیا. میری سمجھ میں یہ بات آج تک نہیں آ سکی کہ جب پراڈکٹس پر خود کپمنی نے بمطابق پنجاب پئیور فوڈ آرڈیننس اینڈ رولز وارننگ لکھی ہوتی ہے کہ
.22.05.15.Best before
تو پھر لیب نے اس تاریخ سے پانچ ماہ بعد تک بھی لیبنے؛
Safe for human consumption
کی گارنٹی کیسے دے سکتی ہے.
اسطرح لیب تو پئیور فوڈ آرڈیننس اینڈ رولز کو ہی چیلنج کر رہی ہے.
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے


کیا کھویا کیا پایا ہے؟


کیا کھویا کیا پایا ہے؟
میرا کام فریاد سننا ہے، وہ خود چل کر میرے پاس آئے تھے، دیا کچھ نہیں. چیف جسٹس جناب ثاقب نثار.
جناب چیف جسٹس صاحب ہر کیس کا اختیار سماعت نہ تو آپکے پاس ہے اور نہ ہی ہر کیس کا فیصلہ کرنا آپکا حق ہے. آپ نے سابق نااہل وزیر اعظم اور منی لانڈرنگ و کرپشن کیس کے ملزم کی پارٹی کے غداری کی حد تک وفادار سرکردہ لیڈر خاقان عباسی صاحب سے ملاقات کر کے نہ صرف سپریم کورٹ کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ
Not in the interest of justice but against the interest of justice
کام کر کے اپنا کیس عوام کے ہاتھ میں دے دیا ہے. اب یہ فیصلہ کرنا کہ آپ نے کیا کھویا کیا پایا ہے آپکا نہیں عوام کا کام ہے.
Now Let the public decide.
.انصاف کا تو یہی تقاضا ہے
یہ تو ٹھیک ہے کہ وہ خود چل کر آپکے پاس آئے مگر کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ
انہوں نے کونسی
Legal remedy and code of procedure
استعمال کیا؟
کھویا کچھ نہیں،فریادی سے فریاد سنی ہے.چیف جسٹسمگر یہ فریاد کس
legal remedy
کے تحت آئی اور کس
Code of procedure
کے تحت سنی گئی؟
جناب چیف جسٹس استعفیدےکرگھر جائیں،انصاف کا تقاضہ اور بااصول منصفوں کی ریت تویہی ہے.
Code of conduct
کی بھی سنگین خلاف ورزی ہوئی ہے جناب چیف جسٹس
ماضی میں اورآج بھی باضمیر منصفوں کے پاس جب کوئی فریق مقدمہ چل کرآتا تو وہ اس کیس کی سماعت سے ہی دستبردار ہو جاتے


Wednesday, March 28, 2018

Under trail cases and remarks


What is this nonsense?

واجد ضیاء بہت ہی برا آدمی ہے.واجد ضیاء نے آخر سچی بات کہہ ہی دی.میں نہ کہتا تھا کہ کسی ثبوت کے بغیرمجھے سزا سنائی گئی ہے. سچ کی قتح ہو گئی. نواز شریر و مریم غریب
واجد ضیاء نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہ پیش کر سکے. آج ساری
گواہی نواز شریف کے حق میں دے دی، کوئی ثبوت نہ پیش کر سکے. کامران خان
Under trail cases and remarks
کے متعلق تبصروں، تجزیوں اور اظہار خیال کا حق سرعام، اور پریس کانفرنس کے زریعے ہرگز نہیں ہونا چاہیے. نجی محفلوں اور چاردیواری کے اندر تک محدود ہونا چاہیے.اس حق کے کھلے عام استعمال کی وجہ سے چیف جسٹس کو وضاحتیں پیش کرنا اور خود کو عوامی سطح پر لانا پڑتا ہے. جو عوام کے دلوں سے عدالتوں کا عزت و وقار مجروح اور رعب و دبدبہ ختم ہو جاتا ہے. جسے توہین عدالت کے کیسز پھیلتے اور عدالتیں سزا سنانے سے اجتناب برتنے پر مجبور ہوتی ہیں.ویسے بھی نہ ہم عوام اور نہ ہی لیڈران کا شعور اتنا بلند ہوا ہے کہ ہم اپنے اپنے قانونی حقوق و زمہ داریوںکا بھرم رکھ سکیں. سیاسی ورکر تو دور کی بات یہاں تو میڈیا بھی پیسے لے کر خبر لگاتا ہے.کسی کے ظرف سے بڑھ کر نہ کر مہر و وفا اتنی


اصل احتساب عوام کریں گے. حمزہ شہباز

ان مکار اور زہنی بیمار کھوتوں کو کون سمجھائے کہ کمزور نہ احتساب /انصاف کر سکتا ہے نہ مانگ سکتا ہے. یہ مہزب دنیا کا مسلمہ اصول ہے. ...